پی ٹی آئی کا عمران کی رہائی کیلئے جیل توڑنے کا منصوبہ

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران تحریک انصاف والوں نے منصوبہ بنایا تھا کہ اڈیالہ جیل توڑ کر پہلے عمران خان کو رہا کرایا جائے گا اور پھر جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا جائے۔ لیکن یہ منصوبہ ناکام بنا دیا گیا جسکے بعد عمران سے مفاہمت اور ان کی رہائی کا دور دور کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ ایسے میں جب نون لیگ کی قیادت پر واضح ہو چکا ہے کہ پنجاب کا میدان سیاست اس کیلئے کھلا ہے تو وہ پیپلزپارٹی کو صوبہ پنجاب میں رتی بھر بھی سپیس دینے کو تیار نہیں۔ تاہم نون لیگ کیلئے سنگین ترین مسئلہ یہ ہے کہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ اور عوامی مقبولیت کیسے بحال کی جائے۔
روزنامہ جنگ کے لیے سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں جو مرضی دعوے کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ حکمران نون لیگ، اس کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف سب کا تنظیمی حال پتلا ہو چکا ہے۔ نہ تو حکومتی جماعتوں کی پنجاب میں کوئی موثر تنظیم ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کا کوئی گراس روٹ لیول سیٹ اپ موجود ہے۔ پچھلے الیکشن سے لیکر اب تک سیاسی احوال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اسلئے تحریک انصاف کا ووٹ بینک تو موجود ہے لیکن پارٹی میں ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے اسکی سٹریٹ پاور ختم ہوچکی ہے۔ نون لیگ کو ماضی میں جو جھٹکے لگے ان کی وجہ سے اس کا تنظیمی سٹرکچر برائے نام رہ گیا ہے، نون لیگ زمینی حقائق سے کٹ چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کی تنظیم بھی کاغذوں اور ناموں تک محدود ہو چکی ہے۔ نہ تو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اپنے ووٹ بینک کو متحرک کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی ضرورت پڑنے پر سڑکوں کو گرم کرسکتی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ تینوں جماعتیں مختلف وقتوں میں موثر تنظیم رکھتی تھیں اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کے ذریعے الیکشن بھی جیتتی رہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اب یہ تینوں سیاسی جماعتیں صرف اخبارات ،ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے زندہ ہیں۔ لیڈر شپ اور ووٹر شپ کا آپس میں براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی سیٹ اپ ہے جو ان کے براہ راست تعلق کو استوار کر سکے۔ اپوزیشن چونکہ مشکل میں ہے لہذا اس کے لیے اپنی توجہ تنظیم پر مرکوز کرنا ممکن نہیں۔ انکی پہلی اور آخری ترجیح سروائول یعنی خود کو بچانے کی ہے۔
پیپلزپارٹی کو بھی علم تو ہے کہ پنجاب میں زمین اس کے نیچے سے کھسک چکی ہے لیکن سے کوئی ایسا فارمولا، کوئی ایسا لیڈر یا ایسا بیانیہ نہیں مل رہا جس سے وہ دوبارہ پنجاب میں قدم جما سکے۔ نون لیگ الیکشن اور تنظیم کے حوالے سے پنجاب میں سب سے تجربہ کار جماعت ہے۔ نون کی اندرونی میٹنگز میں اپنی کمزور تنظیم، ووٹ بینک کی کمی اور بیانیے پر صلاح مشورے ہوتے رہتے ہیں، نون لیگ کی قیادت نے کافی گومگو کے بعد فوجی قیادت کے اس بیانیے کو مکمل طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس سیاست کے پس ِپردہ غیر ملکی منصوبہ ہے جس میں فوج کو کمزور کر کے توڑنا شامل ہے۔ شروع میں نون لیگ کہ کچھ رہنماؤں کو کو اس بیانیے کو تسلیم کرنے میں تامل تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کو دیوار کے ساتھ لگایا جائے، لیکن مجبوریوں نے اب نونیوں کو فوجی قیادت کے ساتھ اس معاملے پر ہم آہنگ کردیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق اب نون لیگی قیادت بھی قائل ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف 9 مئی 2023 کو عمرانڈو ججوں اور جرنیلوں کے ساتھ مل کر فوجی انقلاب لانے کی تیاری میں تھی۔
انکا کہنا ہے کہ 9 مئی 2023 کی سازش ناکام ہونے اور اس کے سنگین نتائج سامنے آنے کے باوجود حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران تحریک انصاف نے یہ خوفناک منصوبہ بنایا تھا کہ اڈیالہ جیل توڑ کر پہلے عمران خان کو رہا کروایا جائے گا اور پھر جی ایچ کیو پر حملہ کیا جائے گا۔ تاہم یہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کا مستقبل تاریک ہوتا دیکھ کر اب نون لیگ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس ایشو پر نونی بڑوں کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نون اب سیاسی بساط پر مہرے چلانے لگی ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ صوبے میں مرحلہ وار بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کروائے جائیں۔ اور پھر جنرل ضیاء ،جنرل ایوب اور جنرل مشرف کے بلدیاتی اداروں کی طرح سے ایک نیا سیاسی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے۔ نون لیگی قیادت کا خیال ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ منتخب بلدیاتی سربراہ نون کی نئی سیاسی نرسری بن جائیں گے۔
نون لیگ کے مشاورتی ملاقاتوں میں یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر بلدیاتی انتخابات منعقد ہونگے تو سیاست بھی زندہ ہوگی اور تحریک انصاف کی مردہ تنظیم میں بھی جان پڑ سکتی ہے لہذا ایسا نہ ہو کہ بلدیاتی انتخابات ایک نئے سیاسی ہنگامے کو جنم دیں۔ چنانچہ بھارت کی طرح مرحلہ وار انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلے پنجاب کے سب سے زیادہ غیر سیاسی اور محفوظ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ نون لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا براہ راست مقابلہ کروانے اور ایک سیاسی دنگل سے بچنے کیلئے اجتماعی کامیابی کا فارمولا اپنایا گیا ہے، یعنی ہر یونین کونسل میں 9 ممبران منتخب ہونگے جو اپنا چیئرمین منتخب کرینگے۔ فی الحال ان بلدیاتی قوانین کی نوک پلک سنواری جارہی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ نون خالی میدان دیکھ کر اس میں کودنے اور پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر خود ہی آنے والی ہے۔
KPKکابینہ کی تشکیل، آفریدی اور گنڈپور گروپ آمنے سامنے آ گئے
یاد رہے کہ نون لیگ کی ابتدا بھی 1979 اور 1983 کے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات اور پھر 1985 کے غیر جماعتی قومی انتخابات سے ہوئی تھی۔
لہذا توقع یہ کی جارہی ہے کہ نومبر کے بعد سے ملک میں واضح سیاسی سمت نظر آنا شروع ہوجائے گی۔ یہ تو طے ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں تحریک انصاف کیلئے کوئی جگہ نہیں لیکن یہ بھی تقریباً طے ہے کہ موجودہ حکومت کو اتحادی جماعتوں کیساتھ چلایا جائیگا یہ بھی واضح نظر آرہا ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے پر فوکس بڑھے گا۔ ان طے شدہ امور کے علاوہ بہت سے ایسے امور ہیں جو ابھی طے نہیں ہیں اور ان پر ابھی اندرونی اختلافات ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ اگلے وزیر اعظم کیلئے مریم نواز کا نام فائنل کرسکا ہے یا نہیں،بلاول بھٹو بھی اسی عہدے کے امیدوار ہیں اور حکومت کے اندر بیٹھے کئی چہرے بھی اسکے خواہش مند ہیں۔ بہرحال یہ طے ہونا باقی ہےکہ سیٹ اپ آئندہ کیلئے کس کی فال نکالے گا؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ دوسرا اہم معاملہ عمران خان کی زندگی اور سیاسی مستقبل کا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کبھی نہ کبھی کرنا ہوگا کہ کیا عمران خان کو اسی طرح جیل میں رکھ کر عدم استحکام کا رسک ہمیشہ برقرار رکھنا ہے یا اس معاملے کے حل کیلئے کوئی راستہ موجود ہے؟ پیپلز پارٹی مخلوط حکومت کی اتحادی ضرور ہے مگر اس نے کوئی وزارت نہیں لی یہ غیر اطمینان بخش انتظام ہے اس میں آئے روز تناؤ کا اندیشہ رہتا ہے ،طے کرنا ہوگا کہ یہ معاملہ اسی طرح نشیب وفراز کا شکار رہے گا یا اسکا بھی کوئی حل ہے؟ نومبر گزرا توان بنیادی اور اہم سوالات پر غور کے بعد ان کے ممکنہ جوابات ڈھونڈنا ہونگے۔
