سہیل وڑائچ Vs فوجی ترجمان، کس کی بات کا یقین کیا جائے؟

 

 

 

فوجی ترجمان کی جانب سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے اس دعوے کی تردید کے بعد کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے انکے ساتھ کوئی سیاسی گفتگو کی تھی، ملک بھر میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟

 

بی بی سی اردو کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق سہیل وڑائچ نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والی اپنی ’پہلی ملاقات‘ کا احوال بیان کیا تھا جس کے بعد نا صرف تحریک انصاف کی جانب سے سخت ردعمل آیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس پر خوب بحث کا آغاز ہوا تھا۔

 

اس کالم کے تناظر میں ہونے والی بحث ابھی تھمی نہیں تھی کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے اِس کالم سے متعلق صحافیوں کو دی گئی ایک وضاحت نے پھر سے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔  روزنامہ جنگ میں 16 اگست کو شائع ہونے والے کالم کا عنوان ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ تھا، اس تحریر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ’سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر عاصم منیر نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔ تاہم سہیل وڑائچ کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سوال کس سے متعلق تھا اور آرمی چیف کے جواب کا ہدف کون تھا۔

 

تاہم 21 اگست کی دوپہر اسلام آباد میں صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس کالم بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف نے برسلز میں نہ تو کسی کو انٹرویو دیا، نہ ہی تحریک انصاف کا ذکر ہوا اور نہ ہی کسی معافی کی کوئی بات ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ صحافی نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ انکے مطابق برسلز کی تقریب میں سینکڑوں افراد موجود تھے، جہاں آرمی چیف نے پاکستان کی خارجہ و دفاعی پالیسی اور سلامتی کے امور پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ تقریب میں شریک افراد نے آرمی چیف کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں اور اس موقع پر کسی سیاسی نوعیت کی بات سامنے نہیں آئی۔

 

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کاکہنا تھاکہ بعض حلقے آرمی چیف کی تقریر کےحوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ آرمی چیف نے پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہاکہ 9 مئی جیسے حملوں میں ملوث لوگوں کو معافی مانگنی چاہئے، یہ فوج نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے خلاف سازش تھی، معافی سے قانونی عمل رک نہیں سکتا۔

 

تاہم سہیل وڑائچ نے فوج کے ترجمان کے اس بیان پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق سہیل وڑائچ نے روزنامہ جنگ میں ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں عاصم منیر سے اپنی پہلی ملاقات اور اس دوران ہونے والی مبینہ بات چیت کا احاطہ کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کے بہت عرصے سے متمنی تھے اور اس ضمن میں انھوں نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے درخواست کی جس کی بنیاد پر ان کی ملاقات ممکن ہو پائی۔ سہیل وڑائچ کے بقول، اُن کی جانب سے ’کھردرے سوالات‘ پوچھے گئے جن کے انھیں ’واضح اور شفاف جوابات‘ ملے۔

 

کالم کے مطابق ’سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، اس حوالے سے انھوں نے سٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق اور شیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میں فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا، مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔۔۔‘

 

سہیل وڑائچ نے چند روز قبل آرمی چیف کیساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ برسلز میں تقریب کے دوران لی گئی تھی۔

تحریک انصاف نے سہیل وڑائچ کے کالم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک صحافی کی آرمی چیف سے منسوب باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں عمران خان کو دھمکی دی گئی۔ تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ فوج آرمی چیف سے منسوب بیانات پر فوری بیان جاری کرے جس میں ان دعوؤں کی تصدیق کی جائے یا تردید کی جائے۔ چنانچہ اب فوجی ترجمان کی جانب سے رد عمل آ گیا ہے۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ زیر بحث ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے ایکس پر لکھا کہ سہیل وڑائچ نے عمران خان کے قتل بارے افواہ پھیلا دی تھی۔ انھوں نے لکھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ ’سہیل وڑائچ کو یہ من گھڑت کہانی سنانے کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ قوم کے سب سے بڑے لیڈر کو مارنے کی خبریں پھیلا رہے ہیں، ملک انھیں معاف نہیں کرے گا۔‘

 

کالم نگار اور سینئیر صحافی عارفہ نور نے لکھا کہ ’لگتا ہے کہ جنرل ضیا کے پاس ٹیم اچھی تھی جنھیں خبر رکوانا آتی تھی، نہ کہ پانچ دن کے بعد وضاحت جاری کی جائے۔‘ ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’سہیل وڑائچ یا ڈی جی آئی ایس پی آر: کس کی بات پر یقین کریں؟‘

صحافی مطیع اللہ جان نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’بطورِ صحافی سہیل وڑائچ کی طرف سے فیلڈ مارشل سے ملاقات پر شائع کردہ کالم کے مندرجات پر مجھے بھی بڑے تحفظات ہیں کہ انھوں نے بہت سے سوالات نہیں کیے اور یکطرفہ بیانیہ چلایا، مگر جہاں تک خبر کا تعلق ہے تو میرے نزدیک سہیل وڑائچ آئی ایس پی آر سے زیادہ کریڈیبل اور قابلِ اعتبار ہیں۔‘

Back to top button