26 ویں آئینی ترمیم سےآمر سے زیادہ آئین کو نقصان ہوا، اکرم شیخ کے دلائل

سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر متعدد آئینی درخواستوں کی دوبارہ سماعت شروع کر دی ہے۔ یہ ترمیم گزشتہ سال اکتوبر میں متنازع پارلیمانی اجلاس کے دوران منظور کی گئی تھی، جس میں عدالتی اختیارات، ججز کی مدتِ ملازمت، اور چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الزام لگایا تھا کہ ترمیم کی منظوری کے وقت اس کے ارکان کو دباؤ اور اغوا کے ذریعے ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا، جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی سینیٹرز پر دباؤ ڈالے جانے کا دعویٰ کیا۔
بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جب کہ دیگر ججز میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
آئینی دلائل اور عدالتی سوالات
سماعت میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے موجودہ بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بینچ خود اسی ترمیم کے تحت تشکیل دیا گیا ہے جس کے خلاف سماعت کر رہا ہے، لہٰذا اس کیس کی سماعت فل کورٹ کو کرنی چاہیے۔
اکرم شیخ نے 26ویں ترمیم کو ‘متنازع‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی آمر نے آئین کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس ترمیم نے دیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اگر بینچ کے جج خود ترمیم سے مستفید ہو رہے ہوں تو کیا وہ اس پر فیصلہ دینے کے مجاز ہیں؟ جسٹس مظاہر نے کہا کہ اگر آپ مفاداتی ٹکراؤ کی بنیاد پر موجودہ بینچ کو نااہل قرار دے رہے ہیں تو فل کورٹ میں شامل وہی ججز کیسے مجاز ہوں گے؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اب تک کوئی وکیل آئین کے مطابق مکمل دلائل نہیں دے سکا، اور بعض دلائل آئین سے ہٹ کر دیے گئے ہیں۔
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ترمیم کی منظوری میں ووٹنگ آزادانہ نہیں ہوئی یا دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تو عدالت ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ بطور متبادل، صرف وہ دفعات ختم کی جائیں جو عدلیہ کی آزادی کے اصول سے متصادم ہیں، جیسے آرٹیکل 175A میں ججوں کی تقرری و کارکردگی سے متعلق دفعات ، چیف جسٹس کی تقرری کے اختیار میں ترمیم ، آئینی بینچوں کی تشکیل اور خود کار ازخود نوٹس ختم کرنا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (نمبر آف ججز) ایکٹ 2024 کی آئینی حیثیت
درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ بار، ہائی کورٹ بارز، وکلا، پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
یہ مقدمہ اہم اس لیے ہے کیونکہ بینچ وہی قانون چیلنج کر رہا ہے جس کے تحت وہ خود وجود میں آیا۔ ابتدائی سوال یہ ہے کہ آیا یہ بینچ آئینی طور پر یہ کیس سننے کا مجاز ہے، یا صرف مکمل فل کورٹ ہی یہ اختیار رکھتا ہے۔
یہ سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
