’’عِلموں بسّ کریِں او یار‘‘
تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت
منگل کی رات ریموٹ ہاتھ میں پکڑے سی این این سے فاکس نیوز اور وہاں سے بی بی سی کے پھیرے لگاتا رہا۔ بے تحاشہ ذہنی تھکن کے باوجود نیند میرے ذہن کو سکون دینے کو آمادہ نہ تھی۔ امریکہ کے نہایت مستند گردانے کئی صحافتی اداروں نے مختلف قابل اعتبار سروے کرنے والوں کی مدد سے اس امر کو قائل کر رکھا تھا کہ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین کڑا مقابلہ ہوگا۔ پیش گوئی یہ بھی تھی کہ انگریزی محاورے والی ’’نیک ٹو نیک‘‘ انتخابی جنگ کے نتائج مکمل ہونے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ ان کے انتظار میں امریکہ کے کئی شہروں میں ہنگامے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔
امریکہ کے مستند ومعتبر گردانے ذہن سازوں کے خیالات کئی دنوں سے پڑھتے اور سنتے ہوئے اس ملک سے کہیں دور رہتے ہوئے بھی میں گھبرا گیا۔ گھبراہٹ ہی میری بے چینی وبے خوابی کا واحد سبب تھی۔ گھبراہٹ سے نجات پانے کو امریکہ میں مقیم ایک عزیز از جان دوست کو فون ملایا۔ وہ کملاہیرس کے جذباتی حامی ہیں۔ 5نومبر کی رات مگر جی ہارچکے تھے۔ میں نے یہ کہتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی کہ ابھی تو کئی ریاستوں میں ووٹنگ بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ ابھی سے جی ہارنابے وقوفی ہے۔ میرے ساتھ بحث میں الجھنے کے بجائے انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ٹی وی دیکھنا چھوڑکر لیپ ٹاپ کھولوں۔ وہاں کی ایک مشہور ویب سائٹ ہے۔ اسے قانونی طورپر مختلف سوالات کے حوالے سے شرطیں وصول کرنے کی اجازت ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہ انٹرنیٹ پر چلایا جواخانہ ہے۔ نام ہے اس کا ہے کالشی(Kalshi)۔
کسی بھی نوعیت کے جوئے کی مجھے عادت ہی نہیں بلکہ اس سے شدید نفرت بھی ہے۔ اپنے دوست کے اصرار پر لیکن گوگل کی مدد سے مذکورہ جوا خانے میں ’’داخل‘‘ ہوگیا۔ 60سے زیادہ فیصد لوگ وہاں ٹرمپ کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم لگارہے تھے۔ میرے دیکھنے کے وقت 30لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقم اس دعویٰ کی حمایت میں لگائی جاچکی تھی۔ میں نے اس جوا خانے پر حاوی رحجان کو غور سے دیکھنے کے بعد لیپ ٹاپ ہی نہیں بلکہ ٹی وی اور کمرے کی بتیاں بھی بند کردیں۔ ذہنی طورپر خود کو ٹرمپ کی جیت کےلیے تیار کرنے کے بعد گہری نیند سوگیا۔ صبح دیر سے اٹھ کر ریموٹ کا بٹن دبایا تو یہ کالم لکھنے کےلیے قلم اٹھانے سے قبل ٹی وی اسکرین پر خبر دی جارہی تھی کہ ٹرمپ پاکستان کی صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب 270میں سے 246الیکٹورل ووٹ جیت چکا ہے۔ کملا اس کے مقابلے میں ابھی 200کے عدد پر بھی نہیں پہنچی تھی۔ 187پر اٹکی ہوئی تھی۔ ٹی وی سکرین پر یہ نمبر دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’علموں بس کریں او یار‘‘۔عالمی اعتبار سے اہم موضوع کے بارے میں عوامی رائے جاننا ہو تو ’’کالشی‘‘ جیسے جوا خانے کا پھیرا لگائو اور نتائج حاصل کرلو۔
جوا ایک بیماری اور عادت بد ہوتے ہوئے بھی انسانی جبلت ہی کا اہم ترین پہلو بھی ہے۔ جس جوا خانے کا میں نے انٹرنیٹ پر پھیرا لگایا اس پر لوگ رقم لگاکر شرط باندھ رہے تھے۔ مفت کی قیاس آرائی نہیں تھی۔ دْکھ ہوا کہ مجھے اس کے وجود کا پہلے سے علم کیوں نہ تھا۔ کاش پہلے خبر ہوتی تو ٹرمپ کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو امریکی سیاست کا ’’ماہر دانشور‘‘ ثابت کرنے میں آسانی ہوتی۔
سچی بات یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر قائم ایک جو اخانے ہی نے مجھے ’’علموں بس کریں اویار‘‘ کی ترغیب نہیں دی ہے۔ میرے ایک پاکستانی دوست کئی ماہ قبل اسلام آباد منتقل ہوئے ہیں۔ پیشہ وارانہ بینکار ہیں اور عالمی سطح پر مشہور کئی بینکوں کےلیے تین سے زیادہ غیر ملکوں میں کام کرچکے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے دو ممالک میں بھی تعینات رہے۔ بہت مہذب اور خاموش طبع صاحب ہیں۔ کج بحثی میں وقت ضائع کرنے کے عادی نہیں۔ چند روز قبل ہم دوستوں کی ایک محفل میں رات گئے تک بیٹھے رہے۔ میں وہاں نہایت ڈھٹائی سے کملاہیرس کی کامیابی کے دعوے کرتا رہا۔ مجھے گھر چھوڑنے کا ذمہ انہوں نے اپنے سرلے رکھا تھا۔ محفل برخاست ہوئی تو مجھے گھر چھوڑتے ہوئے مختصر ترین الفاظ میں ’’خبر‘‘ انہوں نے محض یہ دی کہ امریکہ کے کامیاب ترین کاروباری اداروں کی اکثریت نہ صرف ٹرمپ کی حامی ہے بلکہ اس کی جیت یقینی بنانے کےلیے خطیر سرمایہ کاری بھی کررہی ہے۔ مجھے تھوڑی دیر کو سوچنا چاہیئے کہ کاروباری ادارے ٹرمپ کی حمایت میں اتنا کھل کر میدان میں کیوں اترآئے ہیں۔
ان کی رائے کو میں نے سنجیدگی سے لیا اور امریکی صدارتی انتخاب کے بارے میں لکھے مضامین کو مختلف انداز میں جانچنے کی کوشش کی۔ ان مضامین کی بدولت چند دن قبل اس کالم میں اصرار کیا کہ امریکی عوام کی اکثریت دورِ حاضر میں بھی عورت کو کمزور جنس تصور کرتی ہے۔ اسے ’’سپرطاقت‘‘ کہلاتے ملک کی صدارت کے قابل تصور نہیں کیا جارہا۔ شاید یہ فیکٹر کملا ہیرس کی ناکامی کا کلیدی سبب ہوسکتا ہے۔
امریکی الیکشن اور پاکستانی سیاست
کملا کی جنس کے علاوہ مجھے اس حقیقت نے بھی حیران کردیا کہ ایلون مسک جس نے ٹویٹر خرید کر اسے ایکس کا نام دیا، نہایت جارحانہ انداز میں اپنے پلیٹ فارم ہی کے ذریعے نہیں بلکہ ذاتی طورپر بھی ٹرمپ کی جیت یقینی بنانے کو مرا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کو امریکہ کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ یا ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ پسند نہیں کرتی۔ اگر یہ تاثر واقعتا درست ہوتا تو ایلون مسک ٹرمپ کی حمایت میں جارحانہ رویہ نہ اپنائے ہوتا۔ وہ امریکہ کے جاسوسی نظام کو خلا میں بھیجے آلات کے ذریعے جدید تربنانے والے ٹھیکے داروں میں سرفہرست ہے۔ امریکی دفاعی ادارے اگر واقعتا ٹرمپ سے نفرت کررہے ہوتے تو وہ اپنے کاروباری مفاد کی خاطر ٹرمپ کی حمایت میں محاورے والے خزانے کے منہ نہ کھول دیتا۔
یہ کالم اگر آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو جان لیا ہوگا کہ میں بدھ 6نومبر2024ء کی صبح ٹرمپ کی جیت کو یقینی تصور کررہا ہوں۔ اس کی جیت نے مجھے اداس بھی کردیا ہے۔ شرم مگر یہ سوچتے ہوئے محسوس ہورہی ہے کہ اس کی ہارکو اتنا یقینی کیوں تصور کررہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ مختلف سیاسی معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم اپنی ’’عقل‘‘ کو دل میں موجود تعصبات کے اثبات کےلیے ہی استعمال کرتے ہیں۔ اسی باعث کئی مرتبہ میرے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ عقل پر ضرورت سے زیادہ انحصار سے پرہیز ہی بہتر ہے۔