اپریل میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں کمی کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران شدت پسندوں کے حملوں میں 22فیصد کمی کو مبصرین پاک افغان تعلقات کی بہتری کا غماز قرار دے رہے ہیں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطحی رابطوں اور یقین دہانیوں کے بعد افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پٹہ ڈالنے اور ان کی سرپرستی ترک کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی جس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور پاکستان میں اپریل کے دوران شدت پسندوں کے حملوں میں 22 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے دوران یہ خبریں گرم تھیں کہ افغان حکومت نے پاکستان کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ وہ کسی صورت اپنی سرزمین پاکستان کےخلاف تخریبی کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے اور وہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرینگے تاکہ ٹی ٹی پی کے شرپسند پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں نہ کر سکیں۔ جس کے بعد دونوں ممالک میں کشیدہ تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔ اب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹ سٹڈیز  نے بھی اپنی رپورٹ میں پاکستان میں کی جانے والی شرپسندانہ کارروائیوں میں کمی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’اپریل میں عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 287 افراد مارے گئے۔‘

رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے 73 فیصد عسکریت پسند تھے جبکہ سکیورٹی اہلکاروں کی اموات جون 2024 کے بعد سب سے کم رہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد مارچ کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہوئی جبکہ فاٹا میں شدت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 116 تک پہنچ گئی، مارچ میں یہ تعداد 61 تھی۔‘خیبر پختونخوا میں شدت پسند حملے معمولی کم لیکن ہلاکتوں میں 48 فیصد کمی آئی۔ اپریل 2025 کے دوران کوئی خودکش حملہ رپورٹ نہیں ہوا۔

مبصرین کے مطابق گزشتہ ماہ پاک افغان تعلقات کے درمیان ایک بڑی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا جبکہ 30 اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے اس دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیا۔ جس کے بعد جہاں دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت میں تسلسل دیکھنے میں آیا وہیں یکم مئی کے روز پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ذیل میں 150 افغان تجارتی مال بردار ٹرکوں کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت میں داخلے کی اجازت دی جو کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ایک غیر معمولی اقدام تھا۔دوسری طرف گزشتہ کچھ دنوں میں افغانستان کی جانب سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 71 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا جس پر اب تک افغان عبوری حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل یا مذمتی بیان دکھائی نہیں دیا۔یہ صورت حال اس بات کی غمازی کرتی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل مستقل بنیادوں پر حل ہو چکے ہیں اور دہشتگردی کے حوالے سے دونوں ملکوں کے مؤقف میں یکسانیت آ چکی ہےمعلوم ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے افغان عبوری حکومت نے پاکستان کی حمایت کردی ہے۔

پاکستانی بوڑھےمیراج طیارےاب بھی انڈین ائیر فورس پر بھاری کیوں؟

 

افغان امور کے ماہر سینئر صحافی فخر کاکا خیل کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے تحریک طالبان پاکستان کے معاملے میں پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ افغان عبوری حکومت نے ممکنہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پاکستان افغانستان کی جانب سے دراندازی کرنے والے طالبان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے جس کے لیے وہ انٹیلی جنس بھی مہیا کریں گے۔

افغانستان کی جانب بڑی تعداد میں دہشتگردوں کے داخلے کی کوشش سے متعلق سوال پر فخر کاکا خیل نے کہاکہ آئی ایس پی آر نے بھی یہی کہا ہے کہ اس کے پیچھے بیرونی قوتیں خاص طور پر بھارت کا ہاتھ ہے اور یہ بہت حد تک ممکن بھی ہے۔ خاص طور پر جب بھارتی خصوصی نمائندے نے افغانستان کا دورہ کیا تو پاکستان اس صورتحال پر الرٹ ہوگیا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی بھی مجبوری ہے اور افغانستان کی بھی مجبوری ہے، پاکستان بیک وقت مشرقی اور مغربی محاذوں پر نہیں لڑ سکتا اور افغانستان کے لیے پاکستان تجارت سمیت کئی حوالوں سے اہم ہے، لیکن تعلقات کی اس بہتری کو مستقل حل سمجھنا بھی درست نہیں۔فخر کاکا خیل نے کہاکہ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرےگا، جبکہ پاکستان میں کسی دہشتگرد حملے کی صورت میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق افغان عبوری حکومت کی معاشی مجبوریاں ہیں اور پاکستان نے انہیں باور کرایا ہے کہ تجارت اور معیشت کی باتیں تب ہی کامیاب ہو سکتی ہیں جب امن ہو۔انہوں نے کہاکہ افغان عبوری حکومت کو پہلے امریکی سی آئی اے سے فنڈز مل رہے تھے جو اب بند ہو گئے ہیں، دوسری طرف افغانستان کا بینکنگ چینل بند ہے، اور بیرون ملک مقیم افغان ماسوائے ہنڈی اور حوالہ کے براہِ راست افغانستان پیسے نہیں بھیج سکتے ۔اس ساری صورتحال میں افغان عبوری حکومت کے پاس واحد راستہ تجارت کا بچتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت نے ملک چلانا ہے جس کے لئے انہیں پیسے چاہییں اس کے لیے ان کے پاس واحد راستہ پاکستان سے تجارت ہے اور پاکستان نے ان سے کہا ہے کہ تجارت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ ممکن نہیں، اسی لیے اب افغان عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کی سرپرستی چھوڑ دی ہے۔

Back to top button