علیمہ نے عمران کی رہائی کے لئے ڈیل کی کھلی پیشکش کیوں کی؟

پی ٹی آئی قیادت نے عمران خان کی رہائی کیلئے باقاعدہ طور پر ڈیل کی پیشکش کر دی ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ عمران خان بات چیت کے لیے تیار ہیں، حتیٰ کہ ’’کچھ دو، کچھ لو‘‘ کے اصول پر بھی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ "ہمارے بھائی نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ بتائیں کہ وہ کیا چھوڑ دیں کہ آپ انہیں رہا کر دیں گے؟ان کا مزید کہنا ہے کہ پیچھے نہ بیٹھیں، ہمارے سامنے آ کر بات کریں، چھپ کر یا پردے کے پیچھے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ عمران خان کو رہا کر دیں ہم ہر بات ماننے کو تیار ہیں۔
مبصرین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے نشتر چلانے والی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان کا بدلا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت موجودہ حالات سے مکمل مایوس ہو چکی ہے اسی لئے انھوں نے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی بجائے منت ترلہ پروگرام شروع کر دیا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ بھارت کی شکست کے بعد اب نہ تو وہ اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنانے کی پوزیشن میں ہیں کیونکہ اس صورت میں انھیں چوکوں چوراہوں پر انڈے اور ٹماٹر پڑیں گے کیونکہ اس وقت پوری عوامی حمایت فوج کے ساتھ ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ سمیت عالمی طاقتیں بھی عمران خان کے معاملے پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں اس لئے پی ٹی آئی قیادت نے ترلہ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں ان کا کلئیر کٹ موقف ہے کہ عمران خان سے کوئی بیک ڈور مذاکرات یا ڈیل نہیں ہو گی۔ عمران خان کو سزائیں عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی ہیں انھیں ریلیف بھی عدالتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈیل اور مذاکرات کی آفرز بارے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف انتشار اور مذاکرات کے مداروں میں چکر کھا رہی ہے چھ لو اور کچھ دو” کے معنی اگر ڈیل، سودابازی اور این آر او نہیں تو کیا ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لینے کی عرضی تو بجا ہے لیکن یہ بھی بتا دیا جائے کہ پی ٹی آئی کے پاس اب کسی کو کچھ دینے کے لئے کیا رہ گیا ہے؟۔حکومت تو شاید بانی پی ٹی آئی کو بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے۔ عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے پہلے بھی مذاکرات سے بھاگ گئے تھے اس لئے بات آگے بڑھانے سے پہلے پی ٹی آئی قیادت یہ طے کر لیں کہ کیا بات کرنی ہے؟ کس نے کرنی ہے؟ اور کس سے کرنی ہے؟ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دے دے کر پی ٹی آئی کے ہاتھ زخمی ہوگئے ، اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات چیت نہیں کررہی تو ہم کیا کریں پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا دروازہ کھلتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں حقیقت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے نوری ملنا چاہتا ہے نہ ناری اور خاکی کیونکہ پاک فوج کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہمارا کام سیاستدانوں سے سیاسی مذاکرات کرنا نہیں، بانی پی ٹی آئی جس انجام سے دو چار ہیں اس کا راستہ انہوں نے خود چنا۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا بانی پی ٹی آئی فوج کی دہلیز پر کب سے بیٹھے ہیں، اگر یہ ڈیل اور ڈھیل نہیں چاہتے تو پھر وہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ بانی پی ٹی آئی کیا چاہتے ہیں یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ پی ٹی آئی ایک ہارا ہوا لشکر ہے جس کے پاس مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں۔ پی ٹی آئی یاد رکھے جب بھی سیاستدانوں نے کوئی راستہ نکالا مل کر نکالا، وہ پالیسی بنائے ، ایک ایجنڈا پر متفق ہوکر بات چیت کیلئے حکومت کے پاس آئے ہم غیر مشروط بات چیت کیلئے تیار ہیں تاہم کسی ڈیل کے ذریعے عمران خان کی رہائی پر قطعا آمادہ نہیں۔
خیال رہے کہ ملک میں ہرچند ماہ بعد یہ بحث زور پکڑتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہونے چاہیں اور تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ عمران خان کو رہائی ملنی چاہیے تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں کسی حد تک اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد خاص طور پر جو پی ٹی آئی نے پاک فوج کے خلاف مہم چلائی، اس نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں لوگوں کی رائے بڑی حد تک منفی کردی تھی۔تاہم اب پاک فوج کے بھارت کو تاریخ ساز جواب نے ان لوگوں کا بھی عسکری قیادت پر مان قائم کردیا ہے جو کبھی افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر میمز بناتے تھے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں عمران خان سمیت بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی سیٹ پکی رکھنے کے لیے صلاحیتیں مسلسل بہتر بنانے کے بجائے دوسروں کو دبانے اور ریاستی اداروں میں بغاوت کروانے کی سازشیں کرتے ہیں اور پھر دھڑلے سے اسی فوج سے مذاکرات اور رہائی کے مطالبات کرتے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو ڈیل کر کے اس لیے رہائی دی جائے کہ انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر جیسے غیرمعمولی صلاحیت کے حامل جرنل کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے صرف اس لیے ہٹادیا تھا کہ وہ ان کے گھر کی کرپشن سامنے لے آئے تھے؟کیا عمران خان کو اس لیے رہائی دے دی جائے کہ وہ جرنل جس نے پاکستان سے کئی گنا بڑے بھارت کو دنیا بھر میں رسوا کردیا، وہ اسے آرمی چیف بنانے کے لیے کسی صورت تیار ہی نہ تھے؟کیا اس عمران خان کو رہائی دے دی جائے جس نے بھارت کی طرح پاکستان کی امداد روکنے کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی خاطر ہرحربہ آزمایا تھا؟ مبصرین کے مطابق ملک میں سیاسی استحکام اور مضبوط ہوتی ہوئی ملکی معیشت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات یقینی ہے کہ عسکری قیادت یا حکومت کبھی بھی ڈیل کے ذریعے عمران خان کی رہائی پر آمادہ نہیں ہو گی کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ رفتہ رفتہ چلتے ملکی معیشت کے پہیے کو مکمل بریک لگ جائے۔