پاکستان پرانڈین ڈرون حملوں میں چینی ٹیکنالوجی کے استعمال کاانکشاف

پاکستان کے قریبی شراکت دار چین کی جانب سے بھارت کی دفاعی ضروریات بھی پوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی ڈرونز کی تیاری میں چینی بیٹریوں سمیت مختلف اجزا اب بھی چین سے درآمد کئے جا رہے ہیں۔ ان اطلاعات نے جہاں پاکستان حکام کو پریشان کر دیا ہے وہیں بھارت کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، بھارتی حکام کو خدشات لاحق ہیں کہ چین پاکستان کی ناراضی سے بچنے کیلئے کسی بھی وقت بھارتی ڈرونز کی تیاری کیلئے بیٹریوں کی فراہمی سے انکار کر سکتا ہے جس سے بھارت کی پوری ڈرون انڈسٹری کا کباڑہ نکل سکتا ہے۔

حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد ملکی دفاع پر مجموعی طور پر 96ارب ڈالر سے زائد خرچ کرنے والے دونوں ممالک نے ڈرون ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔  جہاں ایک طرف پاکستان نے چین اور ترکی سمیت مختلف ممالک سے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہیں بھارت نے آئندہ ایک سے دو سال کے دوران مقامی ڈرون انڈسٹری میں 47کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد دونوں متحارب ممالک آنے والے سالوں میں ڈرون ہتھیاروں کی دوڑ میں الجھتے دکھائی دیتے ہیں

خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کی افواج کئی دہائیوں سے جاری جھڑپوں کے دوران جدید لڑاکا طیارے، روایتی میزائل اور توپ خانہ استعمال کرتی آئی ہیں، تاہم مئی 2025 میں چار دن کی پاک بھارت جنگ کے دوران پہلی بار نئی دہلی اور اسلام آباد نے ایک دوسرے کے خلاف وسیع پیمانے پر بغیر پائلٹ کے طیارے یعنی ڈرونز استعمال کیے۔ جس یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ملک اب جنگی جہازوں، میزائلز اور توپ کانے کو چھوڑ کر ڈرون ہتھیاروں کی دوڑ میں الجھ چکے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے دونوں پڑوسی ممالک ڈرونز کے استعمال میں اضافہ کریں گے، کیونکہ چھوٹے پیمانے کے ڈرون حملے عملے کو خطرے میں ڈالے بغیر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور ایسی کارروائیوں کے ہاتھوں سے نکلنے کے امکان بھی کم ہوتے ہیں۔

بھارت کی 550سے زائد کمپنیو کی نمائندگی کرنے والے ڈرون فیڈریشن انڈیا کے سمت شاہ کے مطابق انڈیا مقامی ڈوروں صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آئندہ 12 سے 24 ماہ میں بغیر پائلٹ طیاروں پر تقریباً 47 کروڑ ڈالر تک خرچ کر سکتا ہے، سمت شاہ کا یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب انڈیا نے اس ماہ ہنگامی فوجی خریداری کے لیے تقریباً 4.6 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔ معاملے سے واقف دو انڈین حکام کے مطابق، انڈین فوج اس اضافی رقم کا کچھ حصہ لڑاکا اور نگرانی کرنے والے ڈرونز پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ماہرین کے مطابق انڈیا میں دفاعی سازوسامان کی خریداری عام طور پر کئی سال پر مشتمل بیوروکریسی کے مراحل سے گزرتی ہے، لیکن اب حکام اس رفتار سے ڈرون بنانے والی کمپنیوں کو تجربات اور مظاہرے کے لیے بلا رہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ تاہم بھارتی ڈرون ساز اداروں کو سب سے بڑی مشکل یہ در پیش ہے کہ وہ انڈین ڈرون پروگرام کا ان اجزا پر انحصار ختم کرنے کے خواہاں ہیں جو چین سے آتے ہیں، جو پاکستان کا مستند فوجی شراکت دار ہے، اس میں ابھی تک بھارتی ڈرون سازوں کو کامیابی نہیں مل سکی ہے کیونکہ انڈیا اب بھی یو اے وی بیٹریوں کے لیے چین میں بنے مقناطیس اور لتھیئم پر انحصار کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈرون ساز اداروں کو خدشہ ہے کہ چین ان اجزأ کو ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے اور بیجنگ بعض حالات میں ان پرزوں کی فراہمی بند کر سکتا ہے۔ جس سے مودی سرکار کا وسیع پیمانے پر بھارتی ڈرونز بنانے کا سارا پروگرام وڑ سکتا ہے

ادھر صورت حال سے واقف پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فضائیہ مزید ڈرونز حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے جدید طیاروں کو خطرے میں ڈالنے سے بچا سکے۔  پاکستان ممکنہ طور پر موجودہ شراکت داریوں کو بنیاد بنا کر چین اور ترکی کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط کرے گا تاکہ مقامی سطح پر ڈرونز کی تحقیق اور پیداوار کی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکے۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ  انڈیا اور پاکستان ’ڈرون حملوں کو عسکری دباؤ ڈالنے کے ایک ایسے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو فوری طور پر کسی بڑے پیمانے پر خرابی کا سبب نہیں بنتا۔‘ تاہم ایسی جھڑپیں مکمل طور پر خطرے سے خالی نہیں ہوتیں۔ کیونکہ دونوں ممالک ڈرونز کو ایسے متنازع یا گنجان آباد علاقوں پر حملے کے لیے بھیج سکتے ہیں جہاں وہ پہلے انسانی عملے والے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔

ماہرین کے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی دونوں ممالک نے ڈرونز کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ انڈیا کی جانب سے 7 مئی کے حملوں کے بعد پاکستان نے  انڈیا کے ساتھ 1700 کلومیٹر طویل سرحد پر جھتوں کی شکل میں ڈرون بھیجے، جن میں سے 300 سے 400 تک ڈرونز نے 36 مختلف مقامات سے داخل ہو کر انڈین فضائی دفاع کو جانچنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد انڈیا نے اسرائیلی ہیرپ، پولینڈ کے وارمیٹ اور مقامی طور پر تیار کردہ یو اے ویز بھی پاکستانی فضائی حدود میں بھیجے۔ ان میں سے کچھ کو پاکستان میں حملوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ تاہم دو پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ انڈیا نے پاکستان میں بڑی تعداد میں اسرائیلی تیار کردہ ہیرپ ڈرونز بھجوائے تھے جنہیں خودکش ڈرونز بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ڈرونز ہدف کے اوپر چکر لگاتے ہیں اور پھر نشانے پر گر کر دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے بعض علاقوں میں جعلی ریڈار نصب کیے تاکہ ہیرپ ڈرونز کو اپنی جانب کھینچا جا سکے، یا ان کے پرواز کے وقت کے ختم ہونے کا انتظار کیا جاتا تاکہ وہ 3000 فٹ سے نیچے آ جائیں اور انہیں مار گرایا جا سکے۔ جس میں سیکیورٹی اہلکار کافی حد تک کامیاب رہے

Back to top button