گنڈاپور نے عمران خان کو استعفے دینے کی دھمکی کیوں دی؟

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں علی امین گنڈاپور کی کابینہ سے جن دو وزرا نے استعفے دیے انہیں 28 ستمبر کو پشاور کے جلسے میں وزیراعلی کے خلاف نعرے بازی کروانے پر عمران خان کی جانب سے مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ گنڈا پور نے اڈیالہ جیل جا کر عمران کو ساری رام کہانی سنائی اور ساتھ میں یہ دھمکی دی کہ اگر ان دو وزراء کو کابینہ سے نہ نکالا گیا تو پھر وہ خود استعفی دینے پر مجبور ہوں گے۔ عمران خان کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ان وزرا کو استعفے دینے کے لیے کہا گیا۔
یاد رہے کہ 28 ستمبر کو پشاور جلسے کے دوران ورکرز کے ایک گروپ نے مسلسل وزیراعلی گنڈاپور کے خلاف نعرے بازی کی اور انہیں ایجنٹ اور غدار قرار دیتے رہے۔ چنانچہ وزیر اعلی نے اس حرکت کا بدلہ دو صوبائی وزراء کو نکلوا کر لیا۔
یاد رہے کہ گنڈاپور نے پشاور جلسے کے فوراً بعد اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین سے 2 گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ انہوں نے عمران خان کو سیاسی اور حکومتی معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ملاقات کے فوری بعد پشاور واپسی پر کابینہ کے 2 اہم وزرا کے استعفے سامنے آگے، علی امین گنڈاپور نے ان دو استعفوں کو معمول کا حصہ قرار دیا لیکن باخبر ذرائع اسے سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک سرگرم رہنما نے بتایا کہ صوبائی کابینہ میں اچانک تبدیلی کا آغاز پشاور جلسے کے بعد ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور جلسے کے دوران جب گنڈاپور تقریر کے لیے آئے تو پنڈال میں شور شرابہ شروع ہو گیا، ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی، انہیں جوتے دکھائے گئے اور ان پر بوتلیں پھینکی گئیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ جلسے کے تمام انتظامات علی امین کی ذاتی میڈیا ٹیم کر رہی تھی اور تمام کیمرے بھی اسی ٹیم کے تھے، جن کی مدد سے ان افراد کی نشاندہی کی گئی جن کا تعلق صوابی اور مردان سے نکلا۔ ان کے مطابق گنڈاپور سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف محاذ آرائی کے ذمہ دار صوبائی کابینہ کے کچھ لوگ ہیں، جنہیں ان کے مخالف عاطف خان گروپ کی سرپرستی حاصل ہے۔ شہرام ترکئی اور اسد قیصر بھی اسی گروپ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو کلپس سے محاذ آرائی کرنے والوں کی نشاندہی کے بعد اسد قیصر اور شہرام ترکئی کو بتایا گیا کہ ان کے بھائیوں کو کابینہ سے نکالا جا رہا ہے، جس پر دونوں نے خود استعفیٰ دینے کی یقین دہانی کرائی۔
یاد رہے کہ کابینہ سے نکالے گئے فیصل ترکئی کا تعلق صوابی کے بااثر ترکئی خاندان سے ہے اور وہ سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے چھوٹے بھائی ہیں جبکہ عاقب اللہ، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بھائی ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی دو واضح دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جس میں ایک علی امین گنڈاپور کا دھڑا ہے جبکہ دوسرا عاطف خان گروپ ہے، ان کے مطابق تحریک انصاف خیبر پختون خواہ کی صدارت عاطف خان گروپ کے جنید اکبر کو دیے جانے کے بعد معاملات مزید گمبھیر ہو چکے ہیں اور دونوں دھڑے کھل کر آمنے سامنے آ چکے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور نے کابینہ کے کچھ ممبران کو ناقص کارکردگی اور کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ 5 کابینہ ممبران کے خلاف شکایات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان میں مالاکنڈ، مردان اور ہزارہ کے ممبران شامل ہیں۔
ان کے مطابق کارکردگی کے نام پر نکالے گئے وزرا سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ذرائع نے واضح نہیں کیا کہ پشاور جلسے میں علی امین سے بد تمیزی میں ان کا کتنا کردار تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ علی امین نے سیاسی مخالف گروپ کو نشانہ بنایا۔
یاد رہے کہ عمران خان سے جیل میں ملاقات کے بعد گنڈاپور نے تفصیلی ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے علیمہ خان کو ملٹری انٹیلیجنس کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ علی امین کا کہنا تھا کہ عمران نے انہیں مکمل اختیار دیا ہے اور کابینہ سے 2 وزرا کو فارغ کرنے سے پہلے ان کو آگاہ کیا گیا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان وزرا کو کیوں نکالا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت علی امین پی ٹی آئی میں مضبوط ترین رہنما ہیں اور بطور وزیراعلیٰ انہیں عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ علی امین کی حمایت کرنا عمران کی مجبوری بھی ہے کیونکہ اگر وہ انہیں وزارت اعلی سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت گر سکتی ہے۔
