یوتھیوں نے کفن کے کپڑے سے نئے سوٹ کیوں سلوانا شروع کردئیے؟
یوتھیے کارکنان کے انکار کے بعد کفن باندھ کر فائنل احتجاجی تحریک چلانے کے دعویدار پی ٹی آئی رہنماؤں کو ہزیمت کا سامنا ہے۔ جس کے بعد یوتھیوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے اب کفن کے لئے خریدے گئے کپڑے سے لٹھے کے سوٹ سلوانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں کیونکہ پارٹی اختلافات اور عمرانڈوز کے احتجاجی تحریک میں شامل ہونے سے انکار کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست خیبر پختونخواہ میں بھی غیر موثر ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت میں باہمی رسہ کشی کے باعث صوابی میں 9 نومبر کو ہونے والا جلسہ بھی منسوخ ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کارکنوں کو 9 نومبر کے جلسے کے حوالے سے تاحال متحرک نہیں کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے صرف جلسے کا اعلان ہوا ہے۔ لیکن اس پر عملدرآمد کے لئے کوئی عملی اقدامات اور انتظامات دیکھنے کو نہیں مل رہے اور نہ ہی تیاریوں کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر اسلام آباد اور لاہور جلسوں کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات پوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں۔ پنجاب و خیبرپختونخوا قیادت کی رائے تقسیم ہے جس کا اثر براہ راست کارکنوں اور پارٹی پر پڑ رہا ہے۔ جبکہ کارکنوں کو متحرک کرنے اور صوابی جلسے کے انعقاد کے حوالے سے کارنرمیٹنگز، اجلاس اور سوشل میڈیا پر بھی تاحال کوئی خاص مہم دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ جس سے اندازہ ہوتا کہ 9 نومبر کا جلسہ بھی منسوخ کر دیا جائے۔
دوسری جانب ناقدین کا صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہنا ہے کہ گنڈاپور حکومت صرف احتجاجی جلسے اور ناچ گانے کرنے میں مصروف ہے۔ اور صوبے کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گنڈاپور حکومت کے پاس صوبے میں ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ نہیں۔ یہ صرف احتجاج کی سیاست کر رہی ہے۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کا9 نومبرکو صوابی میں ہونے والا جلسہ منسوخ نہیں ہوگا۔جس میں ہزاروں کارکنان اور عوام شرکت کریں گے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی میں اختلاف رائے موجود ہے لیکن کوئی فارورڈ بلاک نہیں۔
اس کے برعکس پی ٹی آئی پشاور کے بیشتر دیرینہ کارکنان کا کہنا ہے کہ پارٹی رہنما صرف بیانات ہی محدود ہیں۔ تاہم کارکنان میں 9 نومبر کو صوابی میں منعقد ہونے والے جلسے کے حوالے سے جوش و خروش نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی کے گڑھ سمجھے والے علاقوں میں بھی تحریک انصاف کے کارکنان اپنے معمولات میں مصروف ہیں۔
پی ٹی آئی کے کارکنان کے مطابق ’’شدید مہنگائی ہے اور ہر مہینے ہزاروں روپے کے بجلی بل آ جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمائیں یا تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت کریں؟
گنڈاپور حکومت نے ٹینٹ ویلج لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر اس ٹینٹ میں بیٹھ جائیں گے تو گھر والوں کو روٹی کو ن دے گا۔ اس لئے اب احتجاج سے دور رہنے کا ہی فیصلہ کیا ہے اور گھر والوں کی طرف سے بھی اس کی اجازت نہیں دی جارہی۔ کیونکہ اسلام آباد میں جس طرح تحریک انصاف کے ورکرز کے ساتھ رویہ اپنایاگیا۔
ویسا ہی دوبارہ ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔ اس لیے اچھا یہ ہے کہ اپنے گھر میں ہی رہا جائے اور کام روزگار کے بار ے میں سوچا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جلسہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں اپنے گھر والوں کی کفالت کرنی ہے۔‘‘
تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی نے اس سے پہلے جو کیا وہی طریقہ صوابی میں اپنائے گی۔’کوئی بڑا جلسہ نہیں ہوگا اور نہ کوئی غیر معمولی اقدام کریں گے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مزید وقت چاہتی ہے اسی لیے وہ صوابی میں جلسہ کرکے مزید وقت دیں گے۔‘ تجزیہ کاروں کے مطابق کارکنوں کے ساتھ ساتھ مرکزی قیادت کی طرف سے بہت پریشر ہے کہ کچھ کرکے دکھاؤ۔اس دباؤ کو کم کرنے کے لیےاحتجاج ہوگا تاہم اس بار بھی کوئی بڑا ایکشن نہیں ہوگا۔ پارٹی قیادت تقریر کرکے گھروں کو چلے جائیں گے۔‘
مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ اس بار بھی دھمکیوں سے کام لے رہے ہیں تاکہ وفاق کوئی سخت ایکشن لے اور انھیں سیاسی شہید بننے کا موقع مل جائے تاہم لگتا ہے وفاقی حکومت انھیں سیاسی شہادت کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر آوٹ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔
دوسری جانب مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آچکے ہیں۔ پارٹی کے بعض رہنما نہیں چاہتے کہ علی امین گنڈا پور تحریک میں کامیاب ہو۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات، گروپ بندی اور پارٹی کارکنان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔