مقبولیت کے باوجود عمران خان کو رہائی کیوں نہیں مل پا رہی؟

مئی 2023 میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے تحریک انصاف کی قیادت اپنے کپتان کی مقبولیت کا ڈھنڈورا تو پیٹتی چلی آ رہی ہے لیکن یہ مقبولیت کسی صورت بھی قبولیت میں بدلتی نظر نہیں آتی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد سے عمران خان کو نہ تو کوئی ڈھیل دے رہی ہے اور نہ ہی انکے ساتھ کوئی ڈیل کرنے کو تیار ہے، نتیجہ یہ ہے کہ خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور مسلسل ایسے الٹے سیدھے فیصلے کرتے چلے جا رہے ہیں جن سے پارٹی مزید کمزور ہو رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مسلسل غلط فیصلوں کے نتیجے میں پچھلے دو برس میں پارٹی کی سٹریٹ پاور تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے جو کہ عمران کی اصل طاقت تھی۔ پارٹی قیادت کی جانب سے بار بار کی احتجاجی کالز کی ناکامی نے بطور لیڈر عمران خان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ رہنما عدالتوں میں عمران کے کیسز تو لڑ رہے ہیں لیکن ان کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی جس سے پارٹی میں مایوسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پارٹی اجلاس، ورکرز میٹنگز اور جلسے جلوس میں پارٹی کی موجودہ قیادت ورکرز کو عمران کی جلد رہائی کی نوید سناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کپتان کے خلاف کیسز جھوٹے ہیں اور وہ جلد جیل سے باہر آ جائیں گے۔ لیکن دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی قائدین کی جانب سے عمران خان کے جلد جیل سے باہر آنے کے دعوے اور پیش گوئیاں سچ ثابت نہیں ہو رہیں جس سے پارٹی میں اندرونی اختلافات آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان آئے روز پارٹی کے کسی نہ کسی مرکزی رہنما کی بے عزتی کرتی ہیں جس سے پارٹی میں مزید دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی خبریں مسلسل سامنے آ رہی ہیں جو کہ عمران کی رہائی کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختون خواہ کے ایک صوبائی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت پارٹی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ علیمہ خان اور علی امین گنڈا پور کے مابین جاری خاموش جنگ یے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خواہ میں پی ٹی ائی کی حکومت ہونے کے باوجود پارٹی رہنماؤں کی توجہ عمران خان کی رہائی پر کم اور باہمی اختلافات پر زیادہ ہے۔
پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر نے بتایا کہ اسوقت صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور صوبائی صدر جنید اکبر کے درمیان اختلافات شدید تر یو چکے ہیں اور اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ میں بھی پارٹی کا کوئی احتجاج کامیاب نہیں ہو رہا۔ انھوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان اب ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے کے بھی روادار نہیں جس کی بنیادی وجہ علیمہ خان کا غیر مہذب اور آمرانہ رویہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علیمہ خان مسلسل یہ تاثر دے رہی ہیں کہ علی امین فوج سے ملے ہوئے ہیں اور عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود گنڈاپور بدستور وزارت اعلی پر فائز ہیں اور عمران خان ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔ صوبائی وزیر نے مزید بتایا کہ مرکزی سطح پر بیرسٹر گوہر خان کے ساتھ پی ٹی آئی کا کوئی بھی لیڈر تعاون نہیں کر رہا اور نہ ہی ان کی بات ماننے کو تیار ہے۔
تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اب عمران خان کی جلد رہائی ممکن نہیں لیکن وہ ورکرز کو سرگرم رکھنے کے لیے انکی بہت جلد رہائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ لیکن اب پارٹی ورکرز کو بھی سمجھ آ چکی ہے اور ان کی مایوسی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
