پاکستان مخالف طالبان حکومت سفارتی تنہائی کا شکار کیوں ہے؟

افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد سے کابل میں اقتدار سنبھالنے والی طالبان حکومت چار برس بعد اپنی رجعت پسندانہ پالیسیوں اور وعدہ خلافیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ افغان طالبان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پاکستان سمیت خطے کا کوئی بھی ملک ان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

انگریزی روزانہ ڈان کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کی واحد ذمہ داری افغان طالبان حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کی پالیسیز اسکے وعدوں اور اعلانات سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے برخلاف ہیں۔ یاد رہے کہ اقتدار سنبھالتے وقت افغان طالبان کی مرکزی قیادت نے اعلان کیا تھا کہ اب ان کی پالسیاں 1990 کی دہائی کی پالیسیوں سے مختلف ہوں گی، جب وہ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے۔ جب طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے ایک روڈ میپ دیا تھا جس میں عام معافی کا اعلان، جامع اسلامی حکومت، شریعت میں خواتین کے حقوق کے احترام، اور آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے وعدے کیے گے تھے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری کیساتھ تعمیری تعلقات برقرار رکھنے اور تعلیم و تعمیر نو میں تعاون کا عہد بھی کیا تھا۔

تاہم افغان طالبان کے ان تمام دعووں کی قلعی جلد ہی کھل گئی۔ کابل کی عبوری حکومت طالبان کے زیرِ تسلط ایک ایسا سیٹ اپ بن گئی جہاں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے سے روک دیا گیا، میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں، انتہا پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دی گئی اور پاکستان سے دشمنی ڈال لی گئی۔ یوں افغانستان سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہوگیا۔

پچھلے چار برس میں افغان طالبان کی سفارتکاری کا یہ عالم ہے کہ ساری دنیا میں سے صرف روس نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیا ہے۔ تاہم چین اور پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی طالبان نے ان دونوں ممالک سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ یے کہ چین کے شہر تیانجن میں 31 اگست سے یکم ستمبر تک ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں افغانستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ یاد رہے کہ افغانستان کو ایس سی او میں مبصر کا درجہ حاصل ہے اور یہ میزبان پر منحصر ہے کہ آیا مبصر ممالک کو دعوت نامہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کو مدعو نہ کرنا چین کا فیصلہ تھا۔ سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے چینی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ کابل کے بعد، جس میں پاکستان بھی شامل تھا، یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان کے افغان ہم منصب کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی اور طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا روس بھی اس ہر دباؤ ڈالے گا کہ افغانستان بھی اجلاس میں شریک ہو۔

یاد رہے کہ روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کے بعد امریکا نے سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔ اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 کے تحت طالبان قیادت پر سخت سفری پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ امیر متقی کو تو سکرپٹ لکھا شہباز شریف حکومت نے اسلام آباد کا دورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جہاں وہ کئی بار سرکاری دورے پر آچکے ہیں۔ امیر متقی کا نئی دہلی کا دورہ بھی متوقع ہے لیکن واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں اس کے مخالف ہیں۔ لیکن اس سے بھی حیران کُن بات افغانستان کا ایس سی او اجلاس میں شرکت سے محروم رہ جانا ہے۔

اس حوالے سے میڈیا میں کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ اقدام طالبان حکومت کے خلاف ایک تعزیری کارروائی ہے کیونکہ وہ چین اور پاکستان سے افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کچھ مبصرین کا کہنا یے کہ طالبان حکومت کا تکبر اصل وجہ تھا۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت نے چین کے ساتھ افغانستان سے تیل نکالنے کا ایک بڑا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے چار سال سے افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں، اس کے باوجود وہ عالمی برادری کے ساتھ خیر سگالی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وسطی ایشیا سے لے کر چین اور پاکستان تک اس کی پڑوسی ریاستیں بھی افغانستان کی کمزور معیشت کو برقرار رکھنے اور علاقائی امن کو یقینی بنانے میں اپنے مفادات کے باوجود باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کرتیں۔ طالبان نے سفارتی اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کے لیے افغانستان کے قدرتی وسائل، معدنیات، زراعت اور پانی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ان اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے افغانستان کو بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ مطابقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے طالبان نے اپنے اندرونِ خانہ نظام کو 1990ء کے دقیانوسی نظام کے مطابق کردیا ہے جس کے تحت ہمسایوں کے ساتھ ان کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پھر وہ کیسے یہ امید کرسکتے ہیں کہ اس بار دنیا ان کے ساتھ مختلف سلوک کرے گی؟

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں دوبارہ تنازع کھڑا ہوتا ہے تو طالبان کس کا ساتھ دیں گے؟ کیا وہ دوحہ معاہدے سے پہلے والا وہی پرانا پُرتشدد گروپ بن جائیں گے جو القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور خطے اور دنیا بھر میں دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کام کر رہا تھا؟ ایسے میں طالبان پر نہ صرف امریکا بلکہ اس کے قریبی اتحادی چین کی طرف سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بیجنگ تشویش کا شکار ہے کہ آیا طالبان پر طویل مدتی معدنیات کی کھدائی اور بین الاقوامی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے حوالے سے بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ طاکبان حکومت کے ساتھ اس کے تجربات ٹھیک نہیں رہے۔ اسی لیے چین نے سی پیک سے افغانستان کو خارج کر دیا ہے اور وہ اب بھی اپنے علاقائی عزائم کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نئے دو طرفہ جغرافیائی اقتصادی راستے تلاش کر رہا ہے۔ طالبان کے کچھ رہنماوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ بامعنی روابط کا قیام صرف اقتصادی اور تجارتی شراکت داری سے ممکن نہیں جبکہ اس کے لیے سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان قیادت بالخصوص ملا ہیبت اللہ میں اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے یا کیا وہ اسے سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان کی طالبان حکومت حالات سے موافق پالیسیاں نہیں اپناتی، تب تک افغانستان تنہائی کا شکار رہے گا اور مصائب میں پھنسا رہے گا۔

Back to top button