پاک افغان جنگ بندی زیادہ عرصہ کیوں نہیں چل پائے گی؟

 

 

 

پاکستان اور افغانستان نے قطر میں ہونے والے معاہدے کے تحت فوری جنگ بندی کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ یہ جنگ بندی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گی۔ انکے مطابق بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے سارے فیصلے دہلی میں ہو رہے ہیں۔ لہٰذا نہ تو افغان سرزمین سے آپریٹ کرنے والی تحریک طالبان اپنی پاکستان مخالف دہشت گرد کاروائیوں سے باز آئے گی اور نہ ہی افغان حکومت اسکی پشت پناہی چھوڑے گی۔

 

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کے بعد فریقین نے جنگ بندی اور مستقبل میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستانی اور افغان حکام کے مطابق معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ قطر کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ فریقین جنگ بندی برقرار رکھنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

 

ادھر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے مذاکرات کے بعد اتوار کو اعلان کیا کہ اسلام آباد اور کابل کے مابین سیزفائر معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت پاکستانی سرزمین پر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا‘ اور دونوں ملک ’ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام‘ کریں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ رہے ہیں اور دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

9 اکتوبر کو کابل اور پاکستانی فضائی حملوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی سرحدوں پر حملے کیے، جن کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔ اسکے بعد 15 اکتوبر کی شام دونوں ملکوں کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں 17 اکتوبر کی شام مزید 48 گھنٹے تک توسیع کر دی گئی، جس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے وفود نے ہفتے کو دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں مذاکرات کئے۔

 

ان مذاکرات کے بعد وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اتوار کو ایکس پر امن معاہدے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ثالثی پر قطر اور ترکی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ ’25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ پاک افغان وفود کی ملاقات ہو گی۔ قطری وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ دیرپا امن اور استحکام کے لیے فریقین ایک لائحہ عمل بنائیں گے جس کے ذریعے دونوں ملکوں میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔

 

یاد رہے پاکستان کئی برسوں سے افغانستان کی طالبان حکومت پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔ حالیہ عرصے میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آنے کے بعد کے پاکستان کے اس مطالبے میں شدت آئی ہے۔

پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان سے آ کر پاکستان میں فوج اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔

لیکن طالبان حکومت پاکستان کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی رہی ہے۔

 

ادھر افغان حکومت پاکستان پر حالیہ برسوں کے دوران سرحدی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے ایسی کچھ کاروائیوں کی تردید کی اور کچھ کی تصدیق کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس نے پاکستان مخالف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔

 

15 اکتوبر کو افغان طالبان کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستانی فورسز نے قندھار کے سپین بولدک ضلع پر حملے کیے، جنکے نتیجے میں 12 عام شہری ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ادھر پاکستان کا موقف تھا کہ اس نے افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ مسلح تصادم ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے سے زیادہ دورانیے کے دورے پر انڈیا میں موجود تھے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان پر فضائی حملوں میں شدت انے کے بعد قطر کی ثالثی کے نتیجے میں 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا جس کے بعد دوحہ میں پاک افغان مذاکرات طے ہوئے۔

 

اب حالانکہ خواجہ محمد آصف نے مستقل جنگ بندی کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی۔ ان کے مطابق بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے سارے فیصلے دیلی میں ہو رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف خود طالبان حکومت پر انڈیا سے قربت کا الزام عائد کرنے کے علاوہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی پر حملہ کیا تھا لیکن اس کے جواب میں ہونے والی کارروائیوں میں افغانستان بھی شامل تھا۔ اس کا مطلب ہے یہ دونوں فرنچائز ایک ہی چیز ہیں، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ افغانستان اس وقت انڈیا کی پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ افغان طالبان کے جھںڈے پر تو کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے لیکن وہ انڈیا کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ دوحہ معاہدے کے بعد خواجہ آصف نے ایکس اکاؤنٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا اور دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد پاک افغان جنگ بندی کتنا عرصہ برقرار رہتی ہے۔

 

Back to top button