دفاعی معاہدے کا فائدہ صرف سعودیہ کو ہوگا یا پاکستان کو بھی؟

 

 

 

سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دفاعی معاہدے کی بنیادی وجہ اسکی نیوکلئیر صلاحیت ہے جس کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور ڈاکٹر اے کیو خان کو جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں عظیم شخصیات کیساتھ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جو سلوک کیا وہ سب کے سامنے ہے، لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ دفاعی معاہدے کا فائدہ صرف سعودی عرب کو ہو گا یا پاکستان کو بھی کچھ حاصل ہو گا۔

 

معروف لکھاری کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تخیلاتی محل جس میں تیل کی دولت سے مالا مال عرب بادشاہتوں نے اپنے تحفظ کیلئے امریکہ پر تکیہ کیا ہوا تھا‘ قطر پر اسرائیلی حملے نے پاش پاش کر دیا۔ اس ایک حملے نے راتوں رات خلیجی دنیا کے اس اہم ترین ملک کی سوچ تبدیل کر ڈالی جو پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا تھا۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ بے وقوفی کی انتہا تھی۔ اسرائیل کے بڑے حمایتی امریکہ کو اس حملے سے بہت ذیادہ نقصان ہوا ہے جسکے ذمے قطر سمیت کئی خلیجی ممالک کی سیکیورٹی کی ذمہ داری تھی اور وہ اس کے عوض اربوں ڈالرز وصول کر رہا تھا۔ دہائیوں بعد سعودی فرمانرواؤں کو بھی احساس ہوا کہ ان کے تحفظ کی امریکی ضمانت بے معنی ہو گئی ہے چونکہ اسرائیل کوئی بھی حملہ امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا۔

 

کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ دوحہ کانفرنس میں مالدار عرب ملکوں کا احساسِ عدم تحفظ نمایاں تھا۔ تقریریں ہوئیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا۔ البتہ سعودی عرب نے دیر نہیں لگائی اور پاکستان سے دفاعی معاہدہ کر لیا جس کی بازگشت مشرقِ وسطیٰ اور دور دراز ممالک میں سنی جا رہی ہے۔ معاہدے کے الفاظ کے ذرا پیچھے جائیں تو سب سے اہم بات یہ بنتی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی نیوکلیئر چھتری حاصل کر لی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا چونکی ہے تو اس ایک بات پر۔ نیوکلیئر کا لفظ معاہدے میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ لیکن اس معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ دونوں  ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کسی حملے کی صورت میں دوسرے ملک کے تمام لوازمات اس کے اتحادی کو حاصل ہوں گے۔

 

جب الجزیرہ ٹی وی نے ایک اعلیٰ سعودی اہلکار سے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثے بھی حملے کی صورت میں بروئے کار لائے جا سکیں گے، تو انکا جواب تھا کہ یہ معاہدہ تمام عسکری وسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ اب تک سعودی عرب امریکی نیوکلئیر پروٹیکشن پر انحصار کرتا تھا۔ لیکن دوحہ حملے کے بعد یکایک یہ زلزلہ نما تبدیلی رونما ہوئی کہ سعودی عرب نے اپنے لیے ایک زیادہ قابلِ اعتماد نیوکلیئر تحفظ کا بندوبست کر لیا۔ اگر سعودی عرب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکی تحفظاتی ضمانت کی حیثیت بے معنی ہو گئی ہے تو دوسری بادشاہتوں کو بھی اسی نتیجے پر پہنچنے میں  ذیادہ دیر نہیں لگے گی۔

 

ایاز امیر کہتے ہیں کہ اسرائیل تو بے لگام ریاست ہو چکی ہے‘ جب تک اسے امریکی حمایت حاصل ہے‘ باقی دنیا کی تنقید کی اسے کوئی پروا نہیں لیکن اس سارے ماجرے میں اسرائیل نے مالدار عربوں کی نگاہوں میں امریکہ کو ننگا کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جتنی چاپلوسی مال دار عرب ممالک کر سکتے تھے انہوں نے کر ڈالی۔ قطر نے تو صدر ٹرمپ کے ذاتی استعمال کے لیے ایک مہنگا ترین طیارہ بھی تحفے کے طور پر دیا۔ لیکن جب اسرائیل نے قطر پر حملے کا فیصلہ کیا تو امریکہ نے اسے گرین سگنل دے دیا حالانکہ قطر نے تو امریکہ کو العدید عسکری ٹھکانہ دیا ہوا ہے جو لہ عرب دنیا میں سب سے بڑی ملٹری بیس ہے۔ ایسے میں قطر میں بھی یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہوگی کہ اسے امریکہ سے اربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدنے اور اپنی سکیورٹی امریکہ کے ذمے لگانے کا کیا فائدہ ہوا۔ اس سے پہلے صدر ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر میں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کے وعدے ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ دوحہ پر اسرائیلی بمباروں کے کا حملہ نہ روک سکا۔ سعودی عرب نے اسی پس منظر میں پاکستان کیساتھ دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ قطر کی قیادت نے سوچا کہ اگر اس نے نیوکلیئر ڈھال ہی حاصل کرنی ہے تو کسی قابلِ اعتماد ذریعے سے حاصل کی جائے۔

 

ایاز امیر کے مطابق امریکہ اس معاہدے پر پریشان ہے۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد زَلمے خلیل زاد کی ٹویٹ سامنے آئی ہے جس میں تشویش کا اظہار خاصا واضح ہے۔ کہاں امریکہ مال دار عرب ملکوں کا واحد مائی باپ بنا ہوا تھا اور کہاں یہ پاکستان عربوں کو تحفظ دینے والا بن گیا ہے۔ امریکی دانت تو پیس رہے ہوں گے۔ غزہ پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد عربوں کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا اور یہ کی آج اگر عرب دنیا کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ یعنی خلیجی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی جو امریکی کوشش ہو رہی تھی وہ چکنا چور ہو چکی ہے۔ اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ سعودی عرب کے اسرائیل کی جانب بڑھتے قدم رک جائیں گے۔ آج عرب دنیا کو خطرہ صرف اسرائیل سے ہے جو کہ نیوکلیئر پاور ہے اور عربوں کے پاس اپنی تمام دولت کے باوجود ایٹمی قوت نہیں ہے۔

پاک بھارت جنگ پاک سعودی دفاعی معاہدے کی وجہ کیوں بنی؟

ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس پس منظر کو سامنے رکھیں تو داد ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر قدیر خان جیسے ان پاکستانی دیوانوں کی بنتی ہے جنہوں نے ایٹمی قوت بننے کا سوچا اور تمام مشکلات کے باوجود اس کٹھن راستے پر چل پڑے۔ بھٹو تھا وہ لیڈر تھا جس نے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ریاست نے بھٹو کو صلہ یہ دیا کہ اسے سولی پر ٹانگ دیا۔ ہمارے ہاں دیگر گناہوں میں بڑا گناہ عوامی مقبولیت سمجھا جاتا ہے اور بھٹو کو اسی گناہ کی سزا ملی۔ پھر نام لینا پڑتا ہے ڈاکٹر اے کیو خان کا۔ ان کے بغیر پاکستان ایٹمی قوت نہ بن سکتا۔ آج اگر سعودی عرب نے اس طوفانی لمحے میں پاکستان کی طرف دیکھا ہے تو پیچھے صورتیں دو اشخاص کی ہی آتی ہیں‘ بھٹو اور اے کیو خان۔ اور چونکہ ہماری ریاست کے انداز نرالے ہیں‘ یہ نہ بھولا جائے کہ آخری دنوں میں اے کیو خان بھی یہاں خاصے رسوا ہوئے۔

تاہم دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے سے پاکستان کو کیا حاصل ہو گا؟

Back to top button