تحریک لبیک پر پابندی: مذہب کو ہتھیار بنانے والے فتنے کا خاتمہ

 

 

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ مذہبی شدت پسند جماعت تحریک لبیک پر پابندی نے ایک ایسے فتنے کا خاتمہ کر دیا ہے جو مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں فساد پھیلاتا اور کفر کے فتوے لگاتا تھا۔ یعنی ریاست نے جب اس فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو نتیجہ نکل آیا۔ ایسے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خوف کے حصار سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ قسمت کو دوش دینے کی بجائے معاملات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی جائے اور فیصلے کیے جائیں۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ ہم نے بہت سی باتوں کو ایسے قبول کر لیا تھا کہ جیسے یہ ہمارا مقدر ہیں۔ ان میں نہ کسی تبدیلی کا امکان ہے نہ کسی طرح کا ردو بدل ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی ناکامیوں کو کبھی حالات کا نام دیتے رہے، کبھی مقدر کے نام سے پکارتے رہے اور کبھی اس کو قسمت کا دھندا قرار دیتے رہے۔ اس خود ساختہ مقدر سے لڑنے کا نہ کبھی  ہمیں خیال آیا نہ ہم نے حالات کو بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے مجموعی یاسیت کے تصور کو ہی بدل دیا۔ قسمت کا ستارہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا اور مقدر کا اشارہ ہماری مرضی سے ہونے لگا۔

 

عمار مسعود کے بقول خواتین کے ساتھ سڑکوں گلیوں میں زیادتی کرنا، ان پر جملے کسنا، ان کو چھیڑ کر فرار ہو جانا، ان کے جسموں کو غلط انداز میں چھونا ایسی حرکت تھی جس سے وہ بیان بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ ہر بہن بیٹی والا شخص خوفزدہ رہتا تھا کہ ان کے جان کے ٹکڑے جب گھر سے نکلیں گے تو کتنے درندے انہیں بھنبھوڑنے  کے لیے تیار ہیں۔ کتنی بچیوں نے اسی خوف سے سکول اور کالج جانا چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا تھا اور ہم قسمت کو کوسنے، سماج کو گالی دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہے تھے۔ پھر بھلا ہو مریم کی حکومت کا جس نے سی سی ٹی وی کیمروں سے  ان شیطانوں کی ویڈیوز نکالیں، انکی شناخت کی اور ان کے نیفے میں پستول چلنا شروع ہو گئے۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ قانون کے تحت نہیں ہو رہا لیکن بچیوں والے خوش ہیں کہ جرم اگر یہ ہے تو پھر قانون بھی یہی ہے۔ حکومت نےکوشش کی اور ایک سنگین  جرم دنوں میں کم ہونے لگا۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ شدت پسند مذہبی جماعتیں ایک مدت سے اس ملک میں خوف کی علامت رہی ہیں۔ یہ مذہب کی تعلیم کے بجائے بلیک میلنگ کے پریشر گروپس بن گئیں۔ ان کی زبان پر نام مذہب کا اور ہاتھوں میں چندے کی صندوقچی اور  بغل میں نعرہ کفر کے فتوے کا ہوتا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو اپنی اسڑیٹ پاور سے ڈرایا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان کے سامنے بولے۔ یہ کبھی معصوم مسلمانوں کو کافر قرار دیتے، کبھی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے اور کبھی پولیس والوں کو قتل کرتے۔ سب ان سے خوفزدہ تھے۔ پولیس، حکومت حتی کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے ٹکرانے سے اجتناب کرتی۔ کیونکہ یہ مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے۔ کفر کے فتوے سے سب کی جان جاتی لیکن پھر پنجاب حکومت نے اپنی رٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔ غیر ملکی کرنسی برآمد کی۔ ان کے غنڈوں کو گرفتار کیا۔ پولیس اہلکاروں کے قتل کے مقدمامات درج کروائے۔ ان پر پابندی لگانے کی سفارشات کی گئی اور دنوں میں وفاقی حکومت نے ان پر پابندی لگا دی۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اس پابندی سے ایک فتنہ ختم ہوا، مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ریت ختم ہوئی۔ کفر کے فتوے لگنے کی رسم بند ہوئی۔ ریاست نے فیصلہ کیا تو پھر نتائج آنے لگے۔ خوف کے حصار سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ قسمت کو دوش دینا بند کیا جائے اور واقعات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی جائے۔

 

انکا کہنا ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہمارے بچے ذبح ہوئے۔ ہماری عورتیں بیوہ ہوئیں۔ ہمارے نمازی شہید ہوئے۔ ہماری بچیاں یتیم ہوئیں۔ ہمارے بزرگوں نے جوانوں کے جنازے اٹھائے مگر ہم اس سلسلے میں سوائے تعزیتی بیانوں کے کچھ نہیں کر پائے۔ دشمن کی کمر توڑنے کے دعوے تو کیے مگر دشمن نے ہر بار ہماری کمر توڑ دی، سب جانتے تھے کہ یہ دہشت گردی افغانستان میں بیٹھے دہشتگرد گروپس کر رہے ہیں۔ سب کو پتہ تھا کہ خود کش بمبار کہاں سے آتے ہیں مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ بس! تعزیت کرنے اور ماتم کرنے کی سکت کے سوا ہم میں کچھ ہمت نہیں تھی۔

 

پھر ریاست نے بھائی بھائی کا نعرہ ترک کرتے ہوئے احسان فراموش طالبان کے ساتھ وہ سلوک کرنا شروع کیا جس کا حق دار دشمن ہوتا ہے۔ ان کے گھروں میں گھس کر ان کے دہشتگردوں کو جہنم رسید کیا۔ غیر قانونی افغانوں کو دیس نکالا دیا۔ افغانستان پر جوابی فضائی حملے کیے اور مذاکرات میں بھی عاجزی کا نہیں بلکہ دلیری کا مظاہرہ کیا۔ اب وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دوبارہ پاکستان میں سرحد پار سے کسی دہشت گرد حملے کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان کو پر حملہ کر دیا جائے۔ لہٰذا دنوں میں نتائج آنا شروع ہو گے۔ مایوسی کی کیفیت ختم ہوئی اور ہم نے وہ کام کیا جو دہائیوں  کے بھائی چارے سے نہ ہو سکا۔

ٹی ایل پی پر پابندی: کیا ریاستی سوچ بدل گئی یا وقتی غبار ہے؟

عمار مسعود یاد دلاتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت اس خطے میں راج کرنے کے دعوے  کرتا تھا۔ خطے کا چوہدری دنیا بھارت کو ہی سمجھتی تھی۔ امریکا بھی اسی سے بات کرتا تھا۔ چین کی تجارت کا دارو مدار بھی بھارت پر تھا۔ نیپال بھی اس سے تنگ تھا، سری لنکا میں بھی فسادات انہی کی وجہ سے ہو رہے تھے، کینیڈا میں دہشتگردی اسی کی وجہ سے تھی۔ کشمیر میں بھی اس نے کرفیو لگا رکھا تھا ۔ لیکن کوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ ہم نے ایک مایوس فرسودگی کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا تھا، پھر معرکہ بنیان المرصوص شروع ہوا اور چند روز کی جنگ نے خطے کی خود ساختہ فوجی طاقت دھڑام سے نیچے گر پڑی۔ غرور کا سر نیچا ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کا عَلم بلند ہو گیا۔ اگر وہ جنگ ہم نہ جیتتے تو دنیا اسی طرح بھارت کے قصیدے پڑھتی رہتی، اور کشمیر میں ہونے والے مظالم  کا ذکر کبھی بین الاقومی سطح پر نہ ہوتا۔

ان ساری مثالوں سے ایک بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مایوسی، یاسیت اور خود ترسی سے مملکت کے معاملات نہیں چلتے۔ اپنےحق میں ہاتھ اور ہتھیار دونوں اٹھانے پڑتے ہیں۔ عاجز، بے بس  قوم سے ہارڈ اسٹیٹ بننا پڑتا ہے یہ اصول علاقائی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!